گزشتہ روز بھٹکل مسلم خلیج کونسل کی ایک خاص میٹنگ میں قوم و ملت کے بہت سارے مسائل پر گفتگو ہوئی وہیں کچھ انتہائی اہم معاملات بھی زیر بحث آئے ، جن میں بھٹکل میں صفائی ، ، فور لائن ہائی وے پر جاری تعطل کے معاملہ پر پیش رفت میں تعاون اور گلف میں اپنی جوانیاں گھلانے کے باوجود اپنا ایک گھر نہ بنا پانے والوں کو مکان کی تعمیر کے لیے زمین کی فراہمی جیسے امور انتہائی لائق ستائش تھے۔ یقینا اس کے لئے بھٹکل مسلم خلیج کونسل یا رابطہ سوسائٹی کے ذمہ داران مبارکباد کے قابل ہیں۔ حسن اتفاق یہ کہ اس بار خلیج کونسل میں ایک نہایت سرگرم اور کام پر یقین رکھنے والے شخص کو کلیدی ذمہ داری دی گئی ہے ، کہا جا رہا ہے کہ ایسے اقدامات ایسے ہی اولو العزم قائدین کے رہین منت ہو تے ہیں۔
اس پر زیادہ توجہ دینی چاہئے
خلیج کونسل نے سینٹرل زکوۃ کمیٹی کی تشکیل کے سلسلے میں مشاورت کر کے کوئی فیصلہ لینے کی بات کہی ہے ۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ خلیج کونسل نے جن اقدامات پر غور کیا ہے ان میں ترجیحی بنیاد پر اجتماعی زکوۃ کے نظام کا قیام ہونا چاہئے ۔ اسے آپ سینٹرل زکوۃ کمیٹی کہیں یا اجتماعی نظام تکافل کی کوئی شکل ۔ لیکن اولین فرصت میں اس کام کو انجام دیا جانا چاہئے کہ قوم کے درد مند سرمایہ داروں کی زکوۃ کہیں ایک جگہ اکٹھی کی جائے اور اور اس کا پورا نظام بنا کر تقسیم زکوۃ کا سسٹم بنا دیا جائے ۔ آج سے کم و بیش دس سال قبل ایک سفر کے دوران ، سابق چیف قاضی جماعت المسلمین بھٹکل مولانا ملا اقبال ندوی مرحوم سے تحریکی حلقے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد نے اجتماعی نظام زکوۃ کے قیام سے متعلق گفتگو کی تھی تو مولانا نے اس پر نہایت خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ یہ کام بہت اہم ہے اس پر فوری توجہ دی جانی چاہیے‘۔
اس ہنگامہ خیزی پر بھی قابو پایا جاسکتا ہے
اجتماعی نطام زکوۃ کے قیام پر فوکس کرنے کی وجہ سوائے اس کے کچھ اور نہیں کہ ہمارے یہاں بھٹکل میں سرمایہ داروں کی کوئی کمی نہیں ، اہل خیر حضرات ’’ ایک ڈھوندو ہزار ملتے ہیں ‘‘ والا معاملہ ہے ۔ لیکن اتنی خوبیوں کے باوجود بعض دفعہ بڑی بے ترتیبی سامنے آتی ہے ۔ در اصل رمضان المبارک میں چندہ کے نام پر بھٹکل میں جو بھیڑ نظر آتی ہے اور گھر گھر بھیک مانگنے والوں کے ہجوم سےمحلوں میں جو افراتفری ہوتی ہے اس کی روک تھام کے لئے کوئی نظم کیا جانا چاہئے۔ چندہ کے لئے متعبر دینی اداروں کے مخلص اور بے لوث نمائندہ علمائے کرام اور اہل علم کے ساتھ بھٹکل والوں کا مہمانوں کا سا سلوک کسے یاد نہیں ہوگا۔ لیکن ادھر کچھ برسوں سےفراڈ اور دھوکہ دہی میں کچھ لوگوں کو ماخوذ کیے جانے کے بعد سب پر آنکھ بند کر کے بھروسہ کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی ۔دل اس مسئلہ پراس لیے بھی کڑھتا ہے کہ اللہ کے نام پر زکوۃ اور صدقہ مانگنے والےکھلم کھلا زورے چھوڑ کر راستوں پر کھا تے پیتے ہوئے نظر آّتے ہیں۔طرفہ تماشہ یہ کہ ایسے لوگ ( جن میں خواتین زیادہ ہوتی ہیں ) ان گھروں میں جا کر بھی کھاتے پیتے ہیں جہاں پانچ اور چھ سال کے معصوم بچے بھی روزے سے ہوتے ہیں۔ اس ہنگامی صورتحال پر بھی قابو پانے میں سب سے بڑا ذریعہ یہ ہو سکتا ہے کہ اجتماعی نظام زکوۃ قائم کر کے عمومی طور پر گھروں میں مانگنے والوں کو دینے کی بجائے ایک ہی جگہ سے زکوۃ اور نفلی صدقات کی رقم کی تقسیم کا نظم بنایا جائے ۔ بالخصوص بھٹکل کے مستحق افراد کا سروے کر کے اہل بھٹکل کی زکوۃ سے سب سے پہلے یہاں کے ضرورت مندوں کی کفالت کا نظم کیا جائے ۔ شروع میں کچھ اٹ پٹا سا لگ سکتا ہے کیونکہ روایات سے ہٹ کر کوئی بھی کام پہلے مرحلے میں ایسے ہی سلوک سے دوچار ہوتا ہے ۔ فطرہ کی اجتماعی وصولی اور منظم تقسیم کے ساتھ بھی شروع میں یہی معاملہ روا رکھا گیاتھا جو بعد میں چل کر قبول کیا گیا۔
کاش ارباب حل و عقد کوئی فیصلہ لیں
اجتماعی نظام زکوۃ کے سلسلے کی یہ بات ابھی عوامی سطح پر بات آ گئی ہے تو اس پر فورا ًسے پیش تر غور و خوض ہونا چاہئے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے اور بہت محنت طلب کام ہے۔ اس پر مہینہ دو مہینہ نہیں بلکہ برسوں کی محنت لگ سکتی ہے لیکن کم از کم اس بات کو آگے بڑھا کر اس طرف ایک پہل تو کی جا سکتی ہے۔ بہتر ہے کہ رمضان سے قبل ہی اس موضوع پر بات چیت کو آگے بڑھایا جائے ۔ اگر ہمارے یہاںایسا کوئی نظام قائم ہو جائے تو اہل بھٹکل کے بہت سے اقدامات کی طرح یہ بھی قابل تقلید قدم ہوگا۔ممکن ہے ہماری رائے سے کسی کواختلاف بھی ہو۔ رد و قبول دونوں ہی آپ قارئین کاحق ہے لیکن ہماری دانست میں بھٹکل مسلم خلیج کونسل اس جانب توجہ دیتے ہوئے یہاں کے دینی ، سماجی اورشرعی اداروں کو اعتماد میں لے کرقابلِ عمل طریقہ کار اختیار کرکے منصوبہ بندی کے ساتھ کوئی فیصلہ لے تو یقینا اس کے ہمہ گیر اثرات مرتب ہوں گے اور س میں اللہ نے چاہا تو خیر کا پہلو ہی غالب ہوگا۔ امید ہے کہ رمضان سے پہلے کے یہ دومہینے اس تعلق سے اچھی خبر ضرور لائیں گے ۔
( سید احمدسالک برماور)