
نماز فجر سے نکل رہا تھا کہ مولانا محمد یوسف اصلاحی صاحب کی وفات کی خبر نے دل کو مغموم کردیا ،مولانا کی رحلت کے ساتھ برصغیر ایک ایسی علمی ودینی شخصیت سے محروم ہوگیا، جس کی زندگی کا اولین مقصد قرآن کی تعلیمات کو آسان پیرائے میں اللہ کے بندوں تک پہنچانا،تزکیہ نفس اور اس کی بنیاد پر دعوت دین کی فکر کو دلوں میں زندہ رکھنا تھا۔مولانا کی ولادت 1932 کو ہوئی تھی، حفظ وتجوید کے ساتھ دسویں تک کی تعلیم بریلی اسلامیہ انٹر کالج ہائی اسکول میں ہوئی، جس کے بعد آپ کا داخلہ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور میں، ہوا، یہاں پر تعلیم کی تکمیل کئے بغیر چند سال بعد آپ نے مدرسۃ الاصلاح سرائے میر میں داخلہ لیا، جہاں آپ کو عظیم مفسرقرآن، مولانا اختر حسن اصلاحی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت نصیب ہوئی، جو کہ مولانا حمید الدین فراہیؒ کے علوم کے امین اور اصل علمی وارث تھے۔ یہ شاید آپ کی صحبت ہی کا اثر تھا کہ آپ کی جد وجہد کا محور قرآن فہمی، تزکیہ نفس ، اوردعوت دین رہا۔ جماعت اسلامی ہند سے آپ کی وابستگی ابتدا سے رہی، اور ہندوستان کی جماعت میں ابتدا میں مولانا ابو اللیث اصلاحی، مولانا صدر الدین اصلاحی، مولانا سید احمد عروج قادری، مولانا حامد علی جیسے علماء کی ایک معتد بہ تعداد کی شمولیت بھی، جماعت کے دروس، اجتماعت اور لٹریچر میں ان موضوعات کی حاوی ہونے کا سبب بنی۔ رامپور میں جب تک جماعت کا تحقیقی و تصنیفی ادارہ رہا اس وقت تک آپ اس سے وابستہ رہے، اسی زمانے میں الحسنات رامپور اور زندگی رامپور میں آپ کے مضامین مسلسل شائع ہوئے، ان سے ہماری جیسی نسل کی شعوری زندگی کا آغاز ہوا۔
1972ء میں آپ نے اپنا ذاتی مجلہ ماہنامہ ذکری ڈائجسٹ جاری کیا، آپ نے اپنے دروس اور کتابوں کے ذریعہ دین کے پیغام کو آسان زبان میں پیش کرنے کی بھر پور کوشش کی،جو اس دور میں نوجوانوں اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کو دینی فکر کی طرف راغب کرنے میں بہت موثر اور مددگار ثابت ہوئیں، آپ کی کتاب آداب زندگی کو اللہ تعالی نے بڑی مقبولیت دی، یہ کتاب کئی ایک بچیوں کی درسگاہوں میں داخل نصاب ہیں، اس میں مولانا نے ریاض الصالحین کی حدیثوں اور ابواب کی بنیاد پر اس کے مطالب کو بڑے خوبصورت انداز سے پرویا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی کتابوں میں آسان فقہ اور قرآنی تعلیمات نے بھی بہت فائدہ پہنچایا۔
مولانا ابو سلیم عبد الحی مرحوم کی رحلت کے بعد آپ کی قائم کردہ بچیوں کی درسگاہ جامعۃ الصالحات رامپور کے آپ کئی عشروں تک ناظم رہے، اور اس کے ذریعہ حوا کے بیٹیوں کو قرآن وحدیث اور دینی علوم سے مزین کرکے ملک بھر میں پھیلاد یا، اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس کے فیض کا دائرہ کتنا وسیع ہوا۔
مولانا نے تقریبا اسی سال اس فانی دنیا میں گذارے، جن میں سے شعور کا اکثر حصہ دعوت دین کی اشاعت ، اور اسلامی فکر کو آسان پیرائے میں بندگان خدا تک پہنچانے میں صرف کیا، اس نسل کے لوگوں میں شاید اب صرف مولانا جلال الدین انصر عمری صاحب بقید حیات ہیں، دوسرے دینی حلقوں کا حال اس سے اچھا نہیں، پرانے چراغ بجھتے جارہے ہیں، ساتھ ہی وہ روشن روایات بھی ان کے ساتھ تاریخ کے غبار میں چھپتی جارہی ہے، جو تہذیبوں اور ثقافتوں کے لئے طرہ امتیاز ہوا کرتی ہیں۔ مولانا کا تعلق بھی ایسی ہی نسل سے تھا، جن کی قربانیوں اور جد وجہد کو آئندہ نسلیں مشعل راہ بنائیں تو دارین میں کامیابی اور سرخروئی ان کا قدم چوم سکتی ہے۔مولانا نے اپنے پیچھے جو فکری وتصنیفی سرمایہ، اور جد وجہد کے جو نقوش چھوڑے ہیں، ان شاء اللہ یہ آپ کے لئے سرمایہ آخرت ثابت ہونگے،اور آپ کے درجات کی بلندی کا سبب بنیں گے، اللھم اغفر لہ وارحمہ