وبائی مرض کورونا وائرس کو کچھ شرپسند عناصر نے مسلمانوں کے خلاف دشمنی پھیلانے کے لئے وسیلہ بنادیا ہے۔ سوشیل میڈیا پر کنڑی زبان میں ایسے وائس میجیس عام کئے جا رہے ہیں جس میں یہ تاثر دینےکی کوشش کی جا تی ہے کورونا وائرس کی وبا مسلمانوں کی وجہ سے عام ہو ئی ہے ۔ لھذا مسلمانوں سے خریداری نہ کرنے اور ان سے سماجی طور پر دوریاں بنانئے رکھنے کے رجحان میں اضافہ ہونے کے امکانات ظاہر ہو رہے ہیں ۔ گزشتہ کچھ روز قبل سوشیل میڈیا میں ایک پوسٹر دیکھنے کو ملا تھا جس پوسٹر میں کسی گاؤں میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی کی باتیں کی گئی تھیں ۔ انتہا تب ہوئی تھی جب عقل کے اندھے شخص نے سوشل میڈیا پر ’’کورونا جہاد ‘‘جیسی واہیات عام کیں ۔ ایسے ماحول میں جانکاریہ کہہ رہے ہیں کہ ملک بھر میں کرونا کی آڑ میں مسلمانوں کے خلاف الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ذریعہ جس قسم کی زہر افشانی کی گئی ہےاس سے محسوس ہورہا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی بڑی طاقت کار فرما ہے ۔ ان اندیشوں کو اس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ کسی مستند ذریعہ سے ایسی باتیں عام کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے خبریں بھی نہیں ملی ہیں ۔
بدقسمتی سے یہ غلط اور بے بنیاد مسیجس تیزی کےساتھ وائرل ہورہے ہیں اور اس کے اثرات بھی بالخصوص ہمارے چھوٹے سے شہر بھٹکل میں نظر آنے لگے ہیں، یہاں کے مستند اور معتبر ترین مقامی میڈیا ہاؤس ساحل آن لائن کے مطابق ’’ معصوم اور غریب عوام ان مسیجس کے جھانسے میں آکر مسلمانوں کے قریب آنے میں خوف کھارہے ہیں، گھروں میں تازہ دودھ سپلائی کرنے والوں نے دودھ سپلائی کرنا بند کردیا ہے۔ ترکاری لے کر جو لوگ گھروں کے پاس آتے ہیں، ترکاری کو ہاتھ میں دینے کے بجائے گھر کے ایک حصے پر رکھ کر ایسے پیچھے ہٹ جاتے ہیں جیسے اُن میں کورونا منتقل ہونے کا خطرہ ہو۔ دکانوں میں کام کرنے والے ملازمین دکانوں میں مسلمانوں کے ساتھ کام کرنے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں‘‘۔ساحل آن لائن نے مزید لکھا ہے کہ’’ بھٹکل میں کورونا کو لے کر بعض شرپسند عناصر جس طرح کی فضا بنانے میں مصروف ہیں، اگر اس سلسلے پر فوری قابو نہیں پایا گیا تو اس کے سنگین اثرات رونما ہونے کے امکانات صاف نظر آرہے ہیں۔‘‘
ان باتوں سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اگر وقت رہتے ایسی سوچ عام کرنے والوں پر قابو نہیں پا یا گیا تو بیماری پر قابو پانے کے لئے عمل میں لایا گیا سوشیل ڈسٹینس کہیں سماجی مقاطعہ کا ماحول نہ بنائے ۔ اگر اس روش پر فوری دھیان نہیں دیا گیا تو اس کے برے اثرات ہر دو جانب محسوس کئے جا ئیں گے۔وزیر اعلی بی اایس یدیورپا کی جانب سے کرونا کو مسلمانوں کی طرف منسوب نہ کرنے کی اپیل اور منسوب کر کے ماحول بگاڑنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی دھمکی ایک خوش آئند بات ضرورہے لیکن نچھلی سطح پر اس قسم کے خیالات عام کرنے والوں کو انتظامیہ کی جانب سے نظر انداز کیا جا نا ایک ناخوشگواربات ہے ۔ امید کی جانی چاہئے کہ انتظامیہ اس کے خلاف بھی بند ھ باندھنے کا کام کرے گی ۔
ہمیں یہ کہتے ہوئے باک نہیں کہ اس مہامری میں بیماری کو مذہب سے جوڑنا اور اسے کسی خاص طبقے کی طرف منسوب کر کےمذہبی کارڈ کھیلنا بذات خود کرونا کی وبا سے زیادہ خطرناک اور مہلک ہے ۔ملک کے سماجی تانے بانے کے ساتھ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ سرکاریں اس پر فورا قابو پانے کے لئے کوشش کرے ۔ (برماور سید احمدسالک ندوی بھٹکلی)